Pages

اس بلاگ میں سے تلاش کریں

Sunday, 11 November 2012

اسلام تلوار کے زور پر نہیں، قوت ایمانی صداقت اور عشق مصطفی کے زور سے پھیلا: مفتی محمد ارشد القادری

اسلام تلوار کے زور پر نہیں، قوت ایمانی صداقت اور عشق مصطفی کے زور سے پھیلا: مفتی محمد ارشد القادری



لاہور (پ ر) جامعہ اسلامیہ رضویہ مرکزی تعلیم و تربیت اسلامی کے ماہانہ تربیتی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مفتی محمد ارشد القادری نے کہا کہ حضرت عمرؓ کا دور مثالی دور تھا اور صحابہؓ کے دور میں جتنا بھی اسلام پھیلا ہے تلوار کے زور سے نہیں بلکہ قوت ایمانی، صداقت اور عشق مصطفی سے پھیلا ہے۔ انہوں نے موجودہ جمہوریت کو ایک دھوکہ اور فراڈ قرار دیا۔ آج ہمیں حضرت عمرؓ کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے۔


آج ہمیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نقشِ قدم پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے


پریس۔رپورٹ : موجودہ جمہوریت ایک دغا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور مثالی تھا۔
 ان خیالات کا اظہارعلامہ مفتی محمد ارشدالقادری نے فتوحاتِ فاروقی کے عنوان پر خطبہ دیتے ہوئے کیا۔
وہ گیارہ نومبر بروز اتوار کو جامعہ اسلامیہ رضویہ مرکز تعلیم و تربیت میں ماہانہ اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج ہمیں حضرت عمر  رضی اللہ عنہ کے نقشِ قدم پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔
 مفتی صاحب نے کہاکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے جو کام کیا وہ قابلِ تحسین ہے۔
چیدہ چیدہ نوٹس

از قلم: عبدالرزاق قادری

ماہ ذی الحج کی ۲۸ یا محرم الحرام کی یکم کو امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔ جنگِ قادسیہ کے حوالے سے چند گزارشات کرتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیاء کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے بڑے انسان اور سب سے عظیم منتظم ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے حضرت ابوبکر اعلیٰ درجے پر تھے۔ ان کا تیقن، ان کا تقویٰ اور ان کا سکینہ بے مثال تھا۔ حضرت ابوبکر کا طریق تھا کہ ایک بندے کے ذمہ کوئی ذمہ داری لگا کر دوبارہ باز پُرس نہ فرماتے بلکہ وہ آدمی خود ہی اس کام کو سر انجام دیتا۔ جبکہ حضرت عمر باز پُرس فرماتے۔ دوسرے افراد کے ذریعے نگرانی کرواتے، اطلاع منگواتے اور اگر کام ٹھیک نہ ہوتا تو معطل فرما دیتے۔ آپ کے اس طرزِ عمل پر مؤرخین کی مختلف آراء ہیں۔ میں کتب تواریخ مثلاً البدایہ والنھایہ ، طبری، محمد حسین ہیکل ، نواز احمد، شبلی، ابن خلدون اور سلیمان بلند پوری کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ حضرت عمر کا ہر فیصلہ ہی حق تھا۔آپ کا انداز سب سے زیدہ مؤثر رہا۔ اگرچہ اس میں سختی چھلکتی تھی۔ لیکن ہر فیصلہ حق تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جائے کہ حضرت ابوبکر کے وقت تک اسلامی خلافت کا رقبہ دس لاکھ مربع میل تھا۔ اور عہد فاورقی کے بعد چھبیس لاکھ مربع میل، یعنی سولہ لاکھ مربع میل کا اضافہ ہوا۔ انبیاء کے بعد اتنا بڑا حکمران کسی ماں نے پیدا ہی نہیں کیا۔ آپ فرماتے تھے ۔ جماعت کے بغیر اسلام نہیں۔ امیر کے بغیر جماعت نہیں۔ اور اطاعت کے بغیر امیر نہیں۔ 

کوئی خاندا ن یا قوم کیا کام کرتی ہے اور اس کا نتیجہ کیا آتا ہے یہ ان کی جماعت، امیر اور اس کی اطاعت پر منحصر ہے۔ اسلام کوئی مجسم چیز تو نہیں جو کسی کو دکھایا جاسکے، بلکہ اسلام کے ماننے والے انسان ہی کسی کو دکھائے جا سکتے ہیں۔ اگر جماعت ہو امیر نہ ہو تو کام نہیں ہوتا۔ اور اگر امیر ہو اور اطاعت نہ ہوتو کام آگے نہیں بڑھتا۔
حضرت عمر کا طرز:
دس بندوں پر ایک امیر مقرر فرماتے جو ان میں علم و فضل، تقویٰ و طہارت اور عقل و فہم میں برتر ہوتا ۔
پھر دس امیروں پر ایک امیر ا لاُمراء مقرر فرما دیتے۔ امیر اپنے بندوں سے اور امیرالامراء اپنے تابع امیروں سے پُرسش فرماتے۔
آج کے دور میں سب لوگ نجی کاموں میں مصروف ہو چکے ہیں اگر سب اپنے اپنے ذاتی کاموں میں مصروف ہو جائیں تو اجتماعی تحفظ کا کام کون کرے گا۔ ارتباطِ باہمی سے ہی کام ہوتا ہے۔ 
مفتی صاحب نے کہا عزت کا تعلق مال و دولت سے نہیں بلکہ اعلیٰ کردار سے ہوتا ہے۔

Money is not the status, Status is the Character.
We all are the Muslims,
We all are the purely slaves of the
Beloved Muhammad Mustafa 
Darling of Allah.
انہوں نے اپنی تقریر میں خوبصورت اشعار کا استعمال بھی کیا۔ جیسا کہ
؂ غلامِ مصطفی بن کر میں بک جاؤں مدینے میں
محمد نام پر سودا، سرِ بازار ہوجائے
انہوں نے کہا کسی نے مجھ سے پوچھا تھا
موجودہ جمہوریت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔
میں نے کہا
This democracy is totally fraud.
یہ راستہ ایک ایسا راستہ ہے جس میں تھوڑے پیسے خرچ کرکے بعد میں زیادہ کمانے کا لالچ ہوتا ہے۔ یہ قوموں کی خدمت کا راستہ نہیں۔ اس سے قوموں کی خدمت نہیں ہوتی۔ 
ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا نے اپنے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ آپ بہترخوراک لیں۔ آپ کی قوم کو زیادہ ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا ایک بیٹی ہونے کے ناطے آپ کی رائے ٹھیک ہے۔ مگر میں وہی کھاؤں گا جو قوم کے عام فرد کھاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ کے مطالعہ سے مجھے یہ سمجھ میں آیا کہ چھبیس لاکھ مربع میل کے آخری کونے پر بیٹھا انسان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ سائے کی طرح سمجھتا تھا۔ خود احتسابی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی باز پرس کی فکر ہوتی تھی۔ ہمارے مخالفین مغربی مصنفین نے لکھا ہے کہ اگر مسلمانوں کے پاس ایک عمررضی اللہ عنہ اور ہوتا یا جتنا عرصہ ان کو وقت ملا، اتنا اور مل جاتا تو دنیا میں صرف اسلام اور مسلمان ہی مسلمان ہوتے۔ یہ سب کچھ اس نظم کی بدولت تھا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قائم کیا۔
انہوں نے کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آہستہ آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر خطاب فرماتے حتیٰ کہ اگر کوئی الفاظ گننا چاہتا تو گن لیتا۔
میں نے اپنی زندگی میں مولانا شاہ احمد نورانی کو دیکھا کہ ان کی الفاظ پر گرفت ہوتی، لب و لہجے میں شستگی اور بر موقع ادھر اُدھر کے دلائل کی بجائے قرآن کی آیت پڑھ دیتے۔
لوگ کہتے ہیں۔ مستشرقین کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا۔ آج میں اس کا جواب دیتا ہوں۔ 
سن ۱۴ ہجری محرم الحرام کو جب سلطنتِ فارس اور سلطنتِ روما آپس میں لڑے اور بکھر گئے۔ تو ایرانیوں نے اپنی ملکہ سے استعفیٰ لے لیا۔ اور اکیس سالہ شہزادے یزد گرد بن شہریار بن کسریٰ کو تخت پر بٹھا دیا۔ اس کا اتنا شاندار استقبال کیا، اتنا سراہا کہ کہ پوری قوم کو بادشاہ کے گرد گھما دیا۔
رُستم سے کہا کہ تم قوم سے کہو۔ اگر بادشاہ کہے تو مسلمانوں پر حملہ کر دو۔ تو کردو۔ اور مدینۃالنبی کو فتح کر لو۔ اس نے بڑھک مار دی۔ جب یہ پیغام مدینے تک پہنچا تو حضرت عمر نے خود کمانڈ سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔ بعض نے لکھا کہ ایک منزل تک خودساتھ بھی گئے تھے۔ حضرت زبیر بن عوام، حضرت عبیدہ بن جراح اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم نے آپ کو مرکز میں رہنے کا مشورہ دیا۔ اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ کے جانے سے اسلام کو نقصان ہو سکتا ہے۔ آپ نے تمام صوبوں کے حاکموں کو خط لکھ کر فرمایا تھا کہ جہاں کوئی گھوڑے والا اور عاقل ہے اسے میرے پاس بھیج دو۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے نجد سے خط لکھا کہ میں ایک ہزار عقلاء کو لے کر مدینہ طیبہ آ رہا ہوں
دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا
اے عمر رضی اللہ عنہ! وہ آگیا ہے جس کی ضرورت تھی۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا
آپ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے جو کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں تھے۔ ان سے فرمایا مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔
ان سے فرمایا کہ آپ اپنے خاندانی پس منظر کو مٹا دیں تاکہ آپ کے اور دیگر لوگ (جو آپ کی کمانڈ میں ہیں )ان کے مابین انہیں کوئی تفریق محسوس نہ ہو۔ 
زیادہ سے زیادہ لشکر چوبیس ہزار سے تیس ہزار افراد پر مشتمل تھا۔ 
وقت کے اختصار کے پیش نظر مفتی صاحب نے مختصر بتایا کہ قادسیہ کے مقام پر لشکر نے قیام کیا۔ اُدھر رستم کو اطلاع ملی۔ آپ نے ایک وفد رستم کی طرف بھیجا اس کو پیغام بھیجا کہ ایک دن مر جانا ہے۔ اسلام قبول کر لو۔ یہ امن کا دین ہے۔ تمہارا عہدہ قائم رکھیں گے۔
لوگو دیکھو! اسلام تلوار کے زور پر نہیں پھیلا۔ جہاد سلطنت کی وسعت کے لیے نہیں ہوا۔ مال و دولت کے لیے نہیں ہوا۔ بلکہ اللہ کا دین پھیلانے کے لیے ہوا۔ 
وفد گیا۔ رستم نے بات ہی نظر انداز کر دی۔ نہ جزیہ دینا قبول کیا۔ اور نہ ہی اسلام قبول کیا۔ حضرت نعمان جو وفد کے امیر تھے انہوں نے جنگ کا عندیہ دے دیا۔
ایرانیوں کا ایک لاکھ تیس ہزار کا لشکر تھا۔ کیل کانٹے سے لیس۔ بڑے بڑے ہاتھیوں کی لمبی لمبی قطاریں تھیں۔ قادسیہ سے مدائن کے تخت دو رویہ قطار تھی۔ میدانِ جنگ کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹ قطار کے ذریعے تخت تک جاتی۔ اتنے انتظامات تھے۔ اور مسلمانوں کی صرف تیس ہزار تعدادتھی۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام اپنی قوتِ صداقت، دیانت ، شرافت اور حق ہونے کی وجہ سے پھیلا۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تصدق پھیلا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی وجہ سے پھیلا۔ ایرانی لشکر کے فرنٹ پر ہاتھیوں کا لشکر تھا۔ ان کے درمیاں دو بڑے بڑے موٹے ہاتھی تھے۔ وہ پہاڑ ہی لگتے تھے۔سامانِ جنگ بے پناہ تھا۔ اسی اثناء میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے۔ ان کی ٹانگ کو مسئلہ تھا۔لشکر حضرت خالد کے ذمے لگا دیاگیا۔
اب وہ میدان میں نکلے۔ اللہ اکبر
اوئے امریکیو! اب بھی کہتے ہو کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا۔
ایک طرف ایک لاکھ تیس ہزار اور دوسری طرف صرف تیس ہزار، ایک اور چار کی نسبت تھی۔ ایک بندے کو اگر چار کے حوالے کیا جائے تو کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ صداقتِ اسلام کا یہیں پتہ چلتا ہے۔ پھر میدانِ کار زار میں صحابہ نے قرآن پڑھ کر وہ زور پیدا کردیا۔ کہ کیا بات ہے۔
لیکن ایرانی حملہ کرکے ہاتھیوں کے پیچھے چھپ جاتے۔ عربی گھوڑے ہاتھیوں سے نا آشنا تھے۔ وہ گھوڑے ڈرتے تھے۔ ہاتھی سونڈ سے بھی وار کرتا تھا۔ گھوڑے بدک بدک کر جاتے۔پہلے دن صحابہ کو نقصان ہوا۔ صحابہ نے حضرت سعدرضی اللہ عنہ سے پوچھا۔ کیا کریں۔
جب ایک صحابی شہید ہوتا تو اس کی لاش کو دیکھ کر دوسرے فرماتے بھائی تو چل جنت میں، مَیں بھی آرہا ہوں۔
رستم اینڈ کمپنی جینے کی غرض سے آئے تھے۔
اور صحابہ مرنے کے لیے۔
ایرانیوں کو زندگی عزیز تھی، 
صحابہ کو موت عزیز تھی۔ 
حتیٰ کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے مدینۃ النبی کی طرف منہ کر کے پکارا۔ 
یا رسول اللہ! میں یہاں آ کر بیمار ہو گیا ہوں۔ اگر ہمیں شکست ہو گئی تو قیامت تک لوگ اسلام اور مسلمانوں کو طعنے دیں گے۔ 
حضرت عمر کو لکھوا بھیجا تھا کہ کمک بھیجیں۔ وہاں سے دوسرے دن تک چھ سے دس ہزار تک کمک آ گئی۔ ان نئے آنے والوں نے کہا آپ تھک گئے ہیں۔ ہم تازہ دم ہیں، ہم لڑتے ہیں۔اس وقت ایک لاکھ تیس ہزار کے مقابلے میں دس ہزار تھے۔ صحابہ کی شجاعت نے مخالف لشکر کو ایک انچ بھی آگے نہ آنے دیا۔ وہ حیران و پریشان تھے کہ ان میں کیا طاقت ہے۔
حضرت سعد بیماری کی بناء پر ایک پہاڑی پر خیمہ میں تھے۔ ایرانی سپاہ کے چھے نوجوانوں نے دور سے حضرت سعد کا چہرہ مبارک دیکھا۔ نبی پاک کے ماموں کے پاس آنے کی خواہش کی۔ ان کوپہنچایاگیا۔ انہوں نے دونوں لشکروں کی تعداد بتا کر متقابلی جائزہ پوچھا اور کہا کہ آپ چند روز کی مزاحمت کے بعد ہار جائیں گے۔ 
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ہمیں چشم فلک یہاں جان دیتا دیکھے گی۔ ہم بھاگیں گے نہیں۔ 
وہ چھے نوجوان مسلمان ہو گئے۔ آپ نے ان سے ہاتھیوں کے مسئلے کا حل پوچھا۔ انہوں نے ہاتھیوں کی آنکھیں پھوڑنے کا مشورہ دیا۔ کیونکہ عام نیزے یا تلوار کے زخم کا ہاتھی پر اثر نہیں ہوتا تھا۔
تیسرے دن رسول اللہ کے غلام میدانِ کارزار میں اترے۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اکیلے ہی ہاتھیوں کی صفوں کو چیرا۔ اور لشکر کو چیر کر وسط میں جا پہنچے۔
ایک لاکھ تیس ہزار کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی۔
ہاتھی بد حواس ہو گئے۔
رستم کو حضرت خالد نے ٹانگ سے کھینچا۔ 
رات کے اندھیرے میں سارا لشکرِ کفر بھاگ گیا۔
یہ اطاعتِ امیر کا صلہ تھا۔ اللہ نے ایرانیوں کا بیڑا غرق کر دیا۔
یزدگرد نے کہا۔ رستم مارا گیا، میں کیا کروں گا
مفتی صاحب نے کہاکہ حضرت عمر کے دور میں صحابہ نے جو کام کیا وہ قابلِ تحسین ہے۔ انہوں نے مبلغینِ تعلیم وتربیت اسلامی پاکستان اور وابستگان سے کہا۔ خود احتسابی کریں۔ دین کی دعوت دیں۔ جدوجہد سے مت بھاگیں۔دین کاکام کرنے میں کون سی چیز مانع ہے۔ 

Monday, 15 October 2012

حرمت رسول کا تحفظ ہر مسلمان کا فرض ہے: مفتی ارشدالقادری

حرمت رسول کا تحفظ ہر مسلمان کا فرض ہے: مفتی ارشدالقادری


لاہور (پ ر) جامعہ اسلامیہ رضویہ مرکز تعلیم و تربیت اسلامی میں ”حرمت رسول اور اس کے تقاضے“ کے موضوع پر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مفتی محمد ارشدالقادری نے کہا کہ حرمت رسول کا تحفظ ہر مسلمان کا فرض ہے۔ انہوں نے گستاخانہ فلم بنانے والے مسلمانوں کے مجرم ہیں ،انہیں سزا دی جائے۔

Sunday, 14 October 2012

اجتماع, حرمتِ رسول, حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اُس کے تقاضے, عظمتِ رسول, لاہور, پریس رپورٹ


بسم اللہ الرحمن الرحیم

۲۶ ذیقعد ۱۴۳۳ بمطابق14 اکتوبر 2012 بروز اتوارکو مرکزِ تعلیم و تربیت جامعہ اسلامیہ رضویہ( شاہ خالد ٹاؤن ، فیروزوالہ، نزد گورنمنٹ انٹر کالج فیروزوالہ) ایک عظیم الشان تربیتی اور روحانی اجتماع بعنوان " حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اُس کے تقاضے "ہوا۔ جسے علامہ مفتی محمد ارشد القادری کی زیرِ صدارت تعلیم و تربیت اسلامی پاکستان نے منعقد کیا۔اجتماع میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ جس میں ایک کثیر تعداد علماء اسلام ، ائمہ مساجد اور تعلیم و تربیت اسلامی پاکستان کے مبلغین کی تھی۔ اس موقع سب حضرات نے حرمتِ رسول اور عظمتِ رسول کے لیے ہر طرح کی قربانی کا پختہ عزم کیا۔ اور دین کی ترویج و اشاعت کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنے کا ، اپنی جان و مال کی قربانی دینے اور دین کے اوامر و نواہی پر عمل پیرا ہونے کا عہد کیا۔


اجتماع میں نقابت کے فرائض تعلیم و تربیت اسلامی
 پاکستان کے مبلغ مولانا محمد عمران قادری اور مولانا مظہر اقبال قادری نے سر انجام دئیے۔ نعت خوانی کی سعادت عبدالغفار صاحب اور جناب نور محمد صاحب کے حصے آئی۔ جبکہ بیانات میں مولانا عمر قادری، علامہ محمد فاروق قادری رضوی ضیائی ، صاحب زادہ احمد رضا القادری،
صاحب زادہ عاکف قادری، اور حضرت علامہ محمد ارشد القادری کا خصوصی خطاب تھا۔ ان خطابات کو اختصار کے ساتھ یہاں پیش کیا جاتا ہے۔

مولانا عمر قادری نے "عقائد اہل سنت نئے دور کی بدعت نہیں ہیں" کے عنوان پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمۃ اللعٰلمین ہونے کو اور بے مثل ہونے کو قرآن و حدیث کی رو سے درست بتایا اور حضرت حسان بن ثابت کی نعت کا حوالہ دے کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بے مثل ثابت کیا۔ نبی پاک کی حدیث کے مطابق کہ آپ کو کھلایا پلایا جاتا ہے اس حدیث کے حوالے سے بتایا کہ آپ کو عظیم ترین انسان ، سید البشر اور افضل البشر ماننا نئے عقائد نہیں ہیں۔ عمر قادری نے کہا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری نے اسی فکر کو سامنے رکھتے ہوئے منکرین کا رد بڑے زور دار طریقے سے کیا۔ کیونکہ اعلیٰ حضرت کے دور میں منکر موجود تھے۔ اُن کی فکر یا عقائد تیرھویں ،چودھویں صدی کی اختراع نہیں۔ اہل سنت کے عقائد دور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، سیرت سے ثابت ہیں۔ اُس دور میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات کے منکر نہیں تھے۔


مولانا محمد عمران قادری نے دورانِ نقابت پیارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال کی اس انداز سے تعریف کی کہ حق ادا ہوتا ہوا دکھائی دیا۔ لیکن عمران قادری نے کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف بیان کرنے کے لیے اس زمین و آسمان کے اسباب کم ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلندی درجات کو اللہ عزوجل خود قُرآن میں ارشاد فرماتا ہے۔ کسی انسان کے بس کی بات نہیں کہ وہ مدنی تاج دار آقائے نام دار صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل ثناء بیان کر سکے۔ عمران قادری نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک کو بڑے ہی دل نشین انداز میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔

مولانا مظہر اقبال قادری نے "مختلف نظام ہائے زندگی اور مذاہب کا موازنہ اور اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے" کے موضوع پر اپنے خیالات اور اسلام کے کمالات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنے بیان میں فرمایا کہ آج دُنیا تمام نظام ہائے زندگی کا موازنہ کر کے دیکھے اور بتائے کہ کیا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیش کردہ نظام سب سے اعلیٰ اور افضل نہیں ہے؟

اجتماع میں مہمانِ خصوصی علامہ فاروق قادری ضیائی تھے اُنہوں نے اپنے خطاب میں پوری اُمت کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت کا درس دیا۔ اور احباب کو تعلیم و تربیت اسلامی پاکستان سے تعاون کا مشورہ دیا

صاحب زادہ احمد رضا القادری نے فرقہ ورانہ اور جدیدیت کی فکر کو امت مسلمہ کا مسئلہ قرار دیا۔ اور اس کا حل عشقِ مصطفیٰ کی روشنی میں دینی تعلیمات پر عمل کرنے اور وحدتِ اُمّت کی اہمیت کو اُجاگر کیا ۔ اور اور وحدتِ امت کو مسائل کے حل کا پیش خیمہ قرار دیا۔ مزید برآں آپ نے اسلامی تحریک تعلیم و تربیت اسلامی پاکستان کی خدمات اور حضرت علامہ مفتی محمد ارشد القادری صاحب کی دینی و فلاحی خدمات کا تذکرہ بھی کیا۔ اور قوم کو دعوت دی کہ آپ بھی اس عظیم مشن وحدت امت کے سلسلے میں تحریک کا ساتھ دیں۔

صاحب زادہ محمد عاکف قادری نے معاشرتی برائیوں کے خلاف اور مغربی تہذیب کو چھوڑ دینے کے موضوع پر سیر حاصل بحث کی اور قوم کو خواب غفلت سے جاگ کر اسلام کو اپنی اپنی ذات پر نافذ کرنے کا درس دیا انہوں نے کہا کہ جو جس قوم کی مشابہت کرے گا اُس کا حشر بھی اُسی قوم کے ساتھ ہو گا۔

حضرت علامہ مفتی محمد ارشد القادری صاحب نے اپنے خصوصی خطاب میں قوم و ملت کو دوبارہ سے دین سے ناطہ جوڑنے کی ترغیب دلائی۔ اور انبیاء کے گستاخ امریکی و یورپی ظالم درندوں کو تاریخ اور کردار کے حوالے سے آئینہ دکھایا۔
انہوں نے فرمایا کہ امریکی بد معاشوں کی جانب سے بنائی جانے والی گستاخانہ فلم کے رد عمل میں عرب ملکوں کے عوام نے اپنے بینرز اور پلے کارڈز پر لکھوایا ہوا تھا "لبیک یا رسول اللہ"۔ اس عمل سے معلوم ہوا کہ پوری دنیا کے مسلمان آج بھی اپنے آقا کریم سے سچی محبت کرتے ہیں۔ اور یا رسول اللہ کہنا کسی فرقے وغیرہ کا مؤقف نہیں ہے بلکہ ایک عالم گیر اسلامی فکر ہے۔ کیونکہ فلسطین، مصر اور لیبیا میں یارسول اللہ کے بینر پاکستان سے بنوا کر نہیں بھیجے گئے تھے۔ یہ پوری امت مسلمہ کا متفقہ فیصلہ تھا ہے اور ان شاء اللہ سدا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ بر صغیر کے کچھ علاقوں سے یہ کہا گیا کہ یہ نعرہ بریلی شہر کاتیار کردہ ہے حالانکہ ایسا بالکل نہیں۔ بلکہ یہ بریلی سے نشر ضرور ہوا تھا۔ اور آج کے دور میں اُس کا انکار کرنے والے علاقوں سے بھی حرمتِ رسول اور شانِ رسول کے دعوے بلند ہوئے ۔ ان حالات میں امت مسلمہ نے ایک فکر پر متحد ہو کر یہ ثابت کر دیا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری کا طرزِ فکر سب سے اعلیٰ ہے۔ اور اُن کا عشق رسول کا مؤقف ہی درست اسلامی نظریہ ہے۔ اب کوئی جتنے مرضی جلسے اور کتابیں عظمتِ مصطفی کے انکار میں نشر کرے ، یارسول اللہ کہنے کے نعرے کو غلط ثابت نہیں کر سکتا۔ اب تو ساری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں کا حال میڈیا کے ذریعے سے سب کے سامنے ہے۔ اور یہی حق ہے۔ انہوں نے حرمتِ رسول کا مفہوم بیان کرتے ہوئے عربی کی مستند لغات کو سامنے رکھتے ہوئے بتایا کہ عربی کی قاموس میں "تاج العروس" میں لفظ الحُرمہ ، الحُرُمہ اور الحَرَمہ کا مطلب یہ ہے کہ ایسی عزت جو اللہ کسی کو عطا کرے۔ اُس کا انکار گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ اور اُس کو مانا لازم ہے۔ انکارکرنا ارتکابِ حرام ہے۔ جمہور کا مذہب ہے کہ کسی عمل کو حرام قرار دینے کے لیے اُس کا نصِ قطعی اور ظنی الدلالہ سے ثابت ہونا ضروری ہے۔ جب کہ امامِ اعظم کا مذہب یہ ہے کہ اس کے لیے نصِ قطعی اور قطعی الدلالہ ہونا ضروری ہے۔ جمہور واجب کو فرض قرار دیتے ہیں جبکہ امام اعظم کے نزدیک دلیل قطعی کا ہونا بھی ضروری ہے۔ تب فرض قرار پاتا ہے۔ اور اُس کا انکار حرام ہے۔ اجتہاد مسائل کا ہوتا ہے جیسا کہ یہ عمل فرض ہے واجب ہے یا حلال ہے، مکروہِ تحریمی ہے یا تنزیہی وغیرہ۔ عقائد میں اجتہاد نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانیں نصِ قطعی (سورۃ فتح کی آیت 8 اور 9 ) سے بغیر کسی دلیل کے ثابت ہے۔ اور اسے فرض نہ ماننا، اور فرض کا انکار کرنا کفر ہے۔ مولانا مصطفیٰ اور مجھے عربی کی لغات سے لفظِ حرمت کے یہ معانی ومطالب ملے ہیں۔ بغیر کسی جانب داری کے ثابت ہوا کہ امام احمد رضا القادری الحنفی نے بریلی شریف سے آج سے ایک سو سال پہلے یہ فکر نشر کی کہ اُمت کے وقار کا معیار عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بتایا۔ اعلیٰ حضرت نے بتایا کہ رسول اللہ پر قربان رہو گے تو اللہ تمہارا مددگار رہے گا۔ "حرمتِ رسول پر جان بھی قربان ہے " کا نعرہ اعلیٰ حضرت نے دیا۔ مولانا سید دیدار علی شاہ صاحب اسی نعرے کو لے کر بریلی سے اَلوَر گئے اور چھا گئے۔ آگرہ گئے اور چھا گئے۔ لاہور آئے تو چھا گئے۔ابوالحسنات شاہ قادری رحمۃ اللہ علیہ اور سید ابوالبرکات قادری رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی نعرے کو لے کر بریلی سے لاہور آئے اور ختمِ نبوت کے جلسوں میں چھا گئے۔ پھر انہی حضرات کی دیکھا دیکھی دوسرے مکاتبِ فکر کے لوگ سڑکوں پر اسی طرزِ فکر کے ساتھ آئے۔ اور وہ بھی مشہور ہوئے۔ حالانکہ حقیقت میں یہ نعرہ بریلی کے شاہ کا تھا اور اُ ن کے اکابر کا تھا۔ مثال کے طور پر علامہ فضلِ حق خیر آبادی اور مفتی صدرالدین دہلوی اور علامہ مفتی کفایت علی کافی شہید اسی فکر اور نظریے کے حامل تھے۔انگریز حکومت کے خلاف اُن کی قربانیاں تاریخ کا حصہ ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ اے لوگو ! اپنی فکر کا دھارا بدلو۔ ہمارے نبی کی کیا ہی شان ہے۔ آقا کریم اتنے حسین اور جمیل تھے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین فرماتے ہیں کہ وہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے رخساروں میں اپنا چہرہ دیکھ لیا کرتے تھے۔ ایسا حسین اللہ نے کوئی اور بنایا ہی نہیں۔ اللہ قرآن میں سورۃ احزاب میں فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول کو اذیت دیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی لعنت، اور اُن کے لیے دُکھ دینے والا عذاب تیا رکیا گیا ہے۔ رسولِ کریم کی اس دنیا میں تشریف آوری کی غرض و غایت یہ ہے کہ اللہ نے آپ کو شاہد بنا کر مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ یعنی آپ مشاہدہ بھی فرما رہے ہیں اللہ جانتا ہے کہ کیسے فرما رہے ہیں۔ خوش خبری دینے والے ہیں۔ اورڈرانے والے ہیں کہ برائیاں نہ کرو۔ اور اللہ نے فرمایا کہ اے لوگو ! تُم اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ یعنی رسول کو دیکھ کر اللہ پر ایمان لاؤ۔ پھر فرمایا رسول کی تعظیم توقیر کرو۔ اور رسول کی توقیر کرو۔ پھر فرمایا اللہ کی تسبیح کرو صبح اور شام کو۔ پہلے اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ ایمان لانے کے بعد تعظیمِ رسول کرو ۔ بعد میں اللہ کی عبادت کرو۔ اگر ایمان لا کر حرمتِ رسول نہ کی تو عبادت بھی قبول نہیں۔ ایمان اور عبادات کی مقبولیت کا انحصار حرمتِ رسول پر ہے۔ اعمال جو ہوتے ہیں وہ عقائد کے ماتحت ہوتے ہیں۔ عقائد جو ہوتے ہیں وہ اعمال کے ماتحت نہیں ہوتے۔ اقبال نے کہا تھا
؂               قوّتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
           دہر میں اسمِ محمد سے اُجالا کر دے
علامہ نے کہا ہم رسول اللہ کا ہر کمال بغیر کسی دلیل کے مانتے ہیں۔ انسان کو تین چیزیں زیادہ عزیز ہوتی ہیں۔ مال ، اولاد اور جان۔
ہم اپنا مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کی خاطر قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جہاں دین کا کام اُصولی طور پر ہو رہا ہے۔ وہاں اپنا مال خرچ کریں، اپنی اولاد اور جان اپنے آقا کے لیے قربان کریں
انہوں اُمتِ مسلمہ سے اپیل کی کہ وہ دین کی راہ پر چل کر ہی اپنا کھویا ہویا وقار دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔