بسم اللہ الرحمن الرحیم
۲۶ ذیقعد ۱۴۳۳ بمطابق14 اکتوبر 2012
بروز اتوارکو مرکزِ تعلیم و تربیت جامعہ اسلامیہ رضویہ( شاہ خالد ٹاؤن ،
فیروزوالہ، نزد گورنمنٹ انٹر کالج فیروزوالہ) ایک عظیم الشان تربیتی اور روحانی
اجتماع بعنوان " حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اُس کے تقاضے "ہوا۔
جسے علامہ مفتی محمد ارشد القادری کی زیرِ صدارت تعلیم و تربیت اسلامی پاکستان نے
منعقد کیا۔اجتماع میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ جس میں ایک کثیر تعداد علماء
اسلام ، ائمہ مساجد اور تعلیم و تربیت اسلامی پاکستان کے مبلغین کی تھی۔ اس موقع
سب حضرات نے حرمتِ رسول اور عظمتِ رسول کے لیے ہر طرح کی قربانی کا پختہ عزم کیا۔
اور دین کی ترویج و اشاعت کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنے کا ، اپنی جان و
مال کی قربانی دینے اور دین کے اوامر و نواہی پر عمل پیرا ہونے کا عہد کیا۔
اجتماع میں
نقابت کے فرائض
تعلیم و تربیت اسلامی
پاکستان کے مبلغ مولانا محمد عمران قادری اور مولانا مظہر
اقبال قادری نے سر انجام دئیے۔ نعت خوانی کی سعادت عبدالغفار صاحب اور جناب نور
محمد صاحب کے حصے آئی۔ جبکہ بیانات میں مولانا عمر قادری، علامہ محمد فاروق قادری
رضوی ضیائی ، صاحب زادہ احمد رضا القادری،
صاحب زادہ عاکف قادری، اور حضرت علامہ محمد ارشد القادری کا خصوصی خطاب
تھا۔ ان خطابات کو اختصار کے ساتھ یہاں پیش کیا جاتا ہے۔
مولانا عمر قادری نے "عقائد اہل سنت
نئے دور کی بدعت نہیں ہیں" کے عنوان پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے
رحمۃ اللعٰلمین ہونے کو اور بے مثل ہونے کو قرآن و حدیث کی رو سے درست بتایا اور
حضرت حسان بن ثابت کی نعت کا حوالہ دے کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بے مثل
ثابت کیا۔ نبی پاک کی حدیث کے مطابق کہ آپ کو کھلایا پلایا جاتا ہے اس حدیث کے
حوالے سے بتایا کہ آپ کو عظیم ترین انسان ، سید البشر اور افضل البشر ماننا نئے
عقائد نہیں ہیں۔ عمر قادری نے کہا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری نے اسی فکر
کو سامنے رکھتے ہوئے منکرین کا رد بڑے زور دار طریقے سے کیا۔ کیونکہ اعلیٰ حضرت کے
دور میں منکر موجود تھے۔ اُن کی فکر یا عقائد تیرھویں ،چودھویں صدی کی اختراع
نہیں۔ اہل سنت کے عقائد دور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، سیرت سے ثابت ہیں۔
اُس دور میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات کے منکر نہیں تھے۔
مولانا محمد عمران قادری نے دورانِ نقابت
پیارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال کی اس انداز سے تعریف کی کہ حق
ادا ہوتا ہوا دکھائی دیا۔ لیکن عمران قادری نے کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ
علیہ وسلم کی تعریف و توصیف بیان کرنے کے لیے اس زمین و آسمان کے اسباب کم ہیں۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلندی درجات کو اللہ عزوجل خود قُرآن میں ارشاد
فرماتا ہے۔ کسی انسان کے بس کی بات نہیں کہ وہ مدنی تاج دار آقائے نام دار صلی
اللہ علیہ وسلم کی مکمل ثناء بیان کر سکے۔ عمران قادری نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم
کے حلیہ مبارک کو بڑے ہی دل نشین انداز میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔
مولانا مظہر اقبال قادری نے "مختلف
نظام ہائے زندگی اور مذاہب کا موازنہ اور اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے" کے
موضوع پر اپنے خیالات اور اسلام کے کمالات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے
اپنے بیان میں فرمایا کہ آج دُنیا تمام نظام ہائے زندگی کا موازنہ کر کے دیکھے اور
بتائے کہ کیا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیش کردہ نظام سب سے اعلیٰ اور افضل
نہیں ہے؟
اجتماع میں مہمانِ خصوصی علامہ فاروق قادری
ضیائی تھے اُنہوں نے اپنے خطاب میں پوری اُمت کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے بے
پناہ محبت کا درس دیا۔ اور احباب کو تعلیم و تربیت اسلامی پاکستان سے تعاون کا
مشورہ دیا
صاحب زادہ احمد رضا القادری نے فرقہ ورانہ
اور جدیدیت کی فکر کو امت مسلمہ کا مسئلہ قرار دیا۔ اور اس کا حل عشقِ مصطفیٰ کی
روشنی میں دینی تعلیمات پر عمل کرنے اور وحدتِ اُمّت کی اہمیت کو اُجاگر کیا ۔ اور
اور وحدتِ امت کو مسائل کے حل کا پیش خیمہ قرار دیا۔ مزید برآں آپ نے اسلامی تحریک
تعلیم و تربیت اسلامی پاکستان کی خدمات اور حضرت علامہ مفتی محمد ارشد القادری
صاحب کی دینی و فلاحی خدمات کا تذکرہ بھی کیا۔ اور قوم کو دعوت دی کہ آپ بھی اس
عظیم مشن وحدت امت کے سلسلے میں تحریک کا ساتھ دیں۔
صاحب زادہ محمد عاکف قادری نے معاشرتی
برائیوں کے خلاف اور مغربی تہذیب کو چھوڑ دینے کے موضوع پر سیر حاصل بحث کی اور
قوم کو خواب غفلت سے جاگ کر اسلام کو اپنی اپنی ذات پر نافذ کرنے کا درس دیا انہوں
نے کہا کہ جو جس قوم کی مشابہت کرے گا اُس کا حشر بھی اُسی قوم کے ساتھ ہو گا۔
حضرت علامہ مفتی محمد ارشد القادری صاحب نے
اپنے خصوصی خطاب میں قوم و ملت کو دوبارہ سے دین سے ناطہ جوڑنے کی ترغیب دلائی۔
اور انبیاء کے گستاخ امریکی و یورپی ظالم درندوں کو تاریخ اور کردار کے حوالے سے
آئینہ دکھایا۔
انہوں نے فرمایا کہ امریکی بد معاشوں کی جانب سے بنائی
جانے والی گستاخانہ فلم کے رد عمل میں عرب ملکوں کے عوام نے اپنے بینرز اور پلے
کارڈز پر لکھوایا ہوا تھا "لبیک یا رسول اللہ"۔ اس عمل سے معلوم ہوا کہ
پوری دنیا کے مسلمان آج بھی اپنے آقا کریم سے سچی محبت کرتے ہیں۔ اور یا رسول اللہ
کہنا کسی فرقے وغیرہ کا مؤقف نہیں ہے بلکہ ایک عالم گیر اسلامی فکر ہے۔ کیونکہ
فلسطین، مصر اور لیبیا میں یارسول اللہ کے بینر پاکستان سے بنوا کر نہیں بھیجے گئے
تھے۔ یہ پوری امت مسلمہ کا متفقہ فیصلہ تھا ہے اور ان شاء اللہ سدا رہے گا۔ انہوں
نے کہا کہ بر صغیر کے کچھ علاقوں سے یہ کہا گیا کہ یہ نعرہ بریلی شہر کاتیار کردہ
ہے حالانکہ ایسا بالکل نہیں۔ بلکہ یہ بریلی سے نشر ضرور ہوا تھا۔ اور آج کے دور
میں اُس کا انکار کرنے والے علاقوں سے بھی حرمتِ رسول اور شانِ رسول کے دعوے بلند
ہوئے ۔ ان حالات میں امت مسلمہ نے ایک فکر پر متحد ہو کر یہ ثابت کر دیا کہ اعلیٰ
حضرت امام احمد رضا قادری کا طرزِ فکر سب سے اعلیٰ ہے۔ اور اُن کا عشق رسول کا
مؤقف ہی درست اسلامی نظریہ ہے۔ اب کوئی جتنے مرضی جلسے اور کتابیں عظمتِ مصطفی کے
انکار میں نشر کرے ، یارسول اللہ کہنے کے نعرے کو غلط ثابت نہیں کر سکتا۔ اب تو
ساری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں کا حال میڈیا کے ذریعے سے سب کے سامنے ہے۔ اور یہی
حق ہے۔ انہوں نے حرمتِ رسول کا مفہوم بیان کرتے ہوئے عربی کی مستند لغات کو سامنے
رکھتے ہوئے بتایا کہ عربی کی قاموس میں "تاج العروس" میں لفظ الحُرمہ ،
الحُرُمہ اور الحَرَمہ کا مطلب یہ ہے کہ ایسی عزت جو اللہ کسی کو عطا کرے۔ اُس کا
انکار گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ اور اُس کو مانا لازم ہے۔ انکارکرنا ارتکابِ حرام ہے۔
جمہور کا مذہب ہے کہ کسی عمل کو حرام قرار دینے کے لیے اُس کا نصِ قطعی اور ظنی
الدلالہ سے ثابت ہونا ضروری ہے۔ جب کہ امامِ اعظم کا مذہب یہ ہے کہ اس کے لیے نصِ
قطعی اور قطعی الدلالہ ہونا ضروری ہے۔ جمہور واجب کو فرض قرار دیتے ہیں جبکہ امام
اعظم کے نزدیک دلیل قطعی کا ہونا بھی ضروری ہے۔ تب فرض قرار پاتا ہے۔ اور اُس کا
انکار حرام ہے۔ اجتہاد مسائل کا ہوتا ہے جیسا کہ یہ عمل فرض ہے واجب ہے یا حلال
ہے، مکروہِ تحریمی ہے یا تنزیہی وغیرہ۔ عقائد میں اجتہاد نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی شانیں نصِ قطعی (سورۃ فتح کی آیت 8 اور 9 ) سے بغیر کسی دلیل کے
ثابت ہے۔ اور اسے فرض نہ ماننا، اور فرض کا انکار کرنا کفر ہے۔ مولانا مصطفیٰ اور
مجھے عربی کی لغات سے لفظِ حرمت کے یہ معانی ومطالب ملے ہیں۔ بغیر کسی جانب داری
کے ثابت ہوا کہ امام احمد رضا القادری الحنفی نے بریلی شریف سے آج سے ایک سو سال
پہلے یہ فکر نشر کی کہ اُمت کے وقار کا معیار عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بتایا۔ اعلیٰ
حضرت نے بتایا کہ رسول اللہ پر قربان رہو گے تو اللہ تمہارا مددگار رہے گا۔
"حرمتِ رسول پر جان بھی قربان ہے " کا نعرہ اعلیٰ حضرت نے دیا۔ مولانا
سید دیدار علی شاہ صاحب اسی نعرے کو لے کر بریلی سے اَلوَر گئے اور چھا گئے۔ آگرہ
گئے اور چھا گئے۔ لاہور آئے تو چھا گئے۔ابوالحسنات شاہ قادری رحمۃ اللہ علیہ اور
سید ابوالبرکات قادری رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی نعرے کو لے کر بریلی سے لاہور آئے
اور ختمِ نبوت کے جلسوں میں چھا گئے۔ پھر انہی حضرات کی دیکھا دیکھی دوسرے مکاتبِ
فکر کے لوگ سڑکوں پر اسی طرزِ فکر کے ساتھ آئے۔ اور وہ بھی مشہور ہوئے۔ حالانکہ
حقیقت میں یہ نعرہ بریلی کے شاہ کا تھا اور اُ ن کے اکابر کا تھا۔ مثال کے طور پر
علامہ فضلِ حق خیر آبادی اور مفتی صدرالدین دہلوی اور علامہ مفتی کفایت علی کافی
شہید اسی فکر اور نظریے کے حامل تھے۔انگریز حکومت کے خلاف اُن کی قربانیاں تاریخ
کا حصہ ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ اے لوگو ! اپنی فکر کا دھارا بدلو۔
ہمارے نبی کی کیا ہی شان ہے۔ آقا کریم اتنے حسین اور جمیل تھے کہ صحابہ کرام رضوان
اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین فرماتے ہیں کہ وہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ
وسلم کے رخساروں میں اپنا چہرہ دیکھ لیا کرتے تھے۔ ایسا حسین اللہ نے کوئی اور
بنایا ہی نہیں۔ اللہ قرآن میں سورۃ احزاب میں فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ اور اُس کے
رسول کو اذیت دیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی لعنت، اور اُن کے لیے دُکھ دینے
والا عذاب تیا رکیا گیا ہے۔ رسولِ کریم کی اس دنیا میں تشریف آوری کی غرض و غایت
یہ ہے کہ اللہ نے آپ کو شاہد بنا کر مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ یعنی آپ
مشاہدہ بھی فرما رہے ہیں اللہ جانتا ہے کہ کیسے فرما رہے ہیں۔ خوش خبری دینے والے
ہیں۔ اورڈرانے والے ہیں کہ برائیاں نہ کرو۔ اور اللہ نے فرمایا کہ اے لوگو ! تُم
اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ یعنی رسول کو دیکھ کر اللہ پر ایمان لاؤ۔ پھر
فرمایا رسول کی تعظیم توقیر کرو۔ اور رسول کی توقیر کرو۔ پھر فرمایا اللہ کی تسبیح
کرو صبح اور شام کو۔ پہلے اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ ایمان لانے کے بعد
تعظیمِ رسول کرو ۔ بعد میں اللہ کی عبادت کرو۔ اگر ایمان لا کر حرمتِ رسول نہ کی
تو عبادت بھی قبول نہیں۔ ایمان اور عبادات کی مقبولیت کا انحصار حرمتِ رسول پر ہے۔
اعمال جو ہوتے ہیں وہ عقائد کے ماتحت ہوتے ہیں۔ عقائد جو ہوتے ہیں وہ اعمال کے
ماتحت نہیں ہوتے۔ اقبال نے کہا تھا
قوّتِ عشق سے ہر پست کو بالا
کر دے
دہر میں اسمِ محمد سے اُجالا کر دے
علامہ نے کہا ہم رسول اللہ کا ہر کمال بغیر کسی دلیل کے
مانتے ہیں۔ انسان کو تین چیزیں زیادہ عزیز ہوتی ہیں۔ مال ، اولاد اور جان۔
ہم اپنا مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کی
خاطر قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جہاں دین کا کام اُصولی طور پر ہو رہا ہے۔ وہاں
اپنا مال خرچ کریں، اپنی اولاد اور جان اپنے آقا کے لیے قربان کریں
انہوں اُمتِ مسلمہ سے اپیل کی کہ وہ دین کی راہ پر چل کر
ہی اپنا کھویا ہویا وقار دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔